کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 14
’’اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے (اے محمد!) آپ کی طرف وحی کے ذریعے بھیجا ہے، اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اسی دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ مت ڈالنا، مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں ۔ اللہ اپنی طرف جس کو چاہے کھینچ لیتا ہے اور جو شخص اللہ کی طرف رجوع کرے اس کو اللہ اپنی راہ دکھاتا ہے۔‘‘ البتہ انبیائے کرام کی شریعتیں الگ رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا﴾ (المائدہ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور طریقت تجویز کی تھی۔‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اپنے سے پہلی شریعتوں کی نگراں اور فیصلہ کن بن کر آئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیں ۔ ارشاد باری ہے: ﴿قُلْ یٰٓأَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾(الاعراف: ۱۵۸) ’’کہہ دیجئے! اے لوگو میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا﴾ (سبا: ۲۸) ’’اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ لہٰذا کسی کے لیے جائز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کے مطابق عمل اور فیصلہ کرے۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس تورات کا ایک ٹکڑا دیکھا تو فرمایا: