کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 139
۱۹۔’’ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃٌ حَسَنَۃً‘‘ کی تشریح اور حدیث الصدقہ کا بیان: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ان لوگوں کا یہ عمل سچائی پر مبنی ہوتا تو یہ لوگ آپ کے ارشاد پر عمل کرتے اور بدعت سے بچتے، اور اپنے گھروں اور راستوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے، لیکن جیسا کہ صاحب رسالہ نے لکھا ہے کہ محفل میلاد میں مرغوب کھانے ملتے ہیں اور دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تو اس بدعت کی تائید و تقویت کا سبب سب سے بڑا سبب دراصل یہی ہے۔ رہی یہ حدیث ((مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃٌ حَسَنَۃً فَلَہٗ وَ اَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا۔)) تو ’’سنت‘‘ طریقہ کو کہتے ہیں جس کا اطلاق اچھے اور برے اور دونوں پر ہوتا ہے اور قرآن و حدیث میں دونوں ہی کا ذکر موجود ہے۔ سنت حسنہ کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ تَمَسَّکُوْا بِہَا وَ عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَ اِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃً بِدْعَۃٌ۔)) [1] ’’میرے اور خلفاء راشدین کے طریقہ کو مضبوط پکڑ لو اور اس کو ڈاڑھوں سے پکڑو اور نئی نئی ایجاد شدہ باتوں سے بچو، اس لیے کہ سب نئی بات بدعت ہے۔‘‘ خلفائے راشدین کی سنت کا مطلب ان کا طریقہ، جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء نے جو طریقے اختیار کیے ان پر عمل کرنا کتاب اللہ پر عمل کرنا ہے اور دین کی طاقت کا سبب ہے، کسی کو نہ اس میں تبدیلی کا اختیار ہے، نہ اس کے خلاف کسی بات پر غور کرنے کا حق جس نے اس سے راہ پکڑی وہ راہ یاب ہوا، اور جس نے اس سے مدد چاہی فاتح و منصور ہوا، اور جس نے اس کو چھوڑ کر اہل ایمان کی
[1] ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ ، ح: ۴۹۰۹۔