کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 138
بدعت میں ہے۔‘‘ رہی بدعت حسنہ تو وہ عادات میں ہوتی ہے عبادات میں نہیں ، صاحب رسالہ نے کہا: ’’محفل میلاد نبوی کا انعقاد تو صرف اللہ کے ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام اور آپ کی سیرت و فضیلت کے بیان کے لیے ہوتا ہے اور اس میں کھانا کھلایا جاتا ہے، ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے اور شرکاء محفل ایک دوسرے سے مل کر اللہ کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ:… تمام بدعات کا مزاج یہ ہے کہ وہ ذکر الٰہی سے ہٹ کر مختلف قسم کے منکرات کا مجموعہ بن جاتی ہے، کیونکہ بدعات کفر کی قاصد ہیں اور بہت سے بھلائی کے طلبگار بھلائی سے محروم رہتے ہیں ، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تاکید فرمائی ہے کہ بدعات کو دور کریں ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو کاٹ دیا جس کے نیچے لوگ اس خیال سے نماز پڑھنے لگے تھے کہ نبوی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نیچے صحابہ سے بیعت لی تھی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں کو منع فرمایا دیا تھا جو مسجد نبوی میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر تسبیحات پڑھتے تھے، ان میں سے ایک شخص کہتا تھا: ’’سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھو‘‘ تو بقیہ لوگ سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھتے تھے، پھر کہتا: ’’سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو‘‘ تو لوگ سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتے تھے۔ پھر کہتا: ’’سو مرتبہ اللہ اکبر‘‘ کہو ، لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔ ان کو اس طریقہ پر تسبیحات پڑھنے سے منع فرمایا اور کہا اس کے بدلے اپنے گناہ شمار کرو ہم ذمہ دار ہیں کہ تمہاری نیکی ضائع نہ ہوگی، اور انبیاء و صالحین کے بارے میں غلو کے سبب ہی سے عربوں میں بت پرستی آئی، اور وہ ان صالحین کی قبروں کو استھان بنا کر پوجنے لگ گئے، اور جس قوم میں کوئی بدعت جاری ہوتی ہے وہاں سے کوئی سنت اٹھا لی جاتی ہے، لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا بدعت کے ایجاد سے بہتر ہے۔