کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 133
مرتبہ اسی دن اکٹھا ہوتے ہیں اور اللہ کی بندگی نہایت اطمینان سے کرتے ہیں ، اللہ نے اسی بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الجمعہ: ۹)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جان سکو۔‘‘
اس لیے فقہاء نے بلا ضرورت متعدد جگہ جمعہ پڑھنا حرام قرار دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جمعہ حق ہے ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ واجب ہے، سوائے چار شخصوں کے، غلام، عورت، بچہ اور بیمار۔[1]
اور جمعہ کا یہ اجتماع کتاب و سنت اور اجماعت امت سے مشروع ہے اور اس کی فضیلت، اس کی محافظت اور اس کے چھوڑنے پر سخت ترین وعید کی بابت کثرت سے احادیث مروی ہیں ، چنانچہ امام مسلم نے عبدالرحمن بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر کی سیڑھیوں پر کہتے سنا ہے: ’’لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ ہمیشہ کے لیے غافل ہو جائیں گے۔‘‘ [2]
لہٰذا جمعہ کے اس مشروع اجتماع کو میلاد النبی کے اس اجتماع پر قیاس نہیں کرنا چاہیے جس کی کتاب و سنت اور عمل صحابہ سے کوئی اصل ثابت نہیں اور ائمہ مذاہب میں سے کوئی بھی
[1] ابوداؤد، باب الجمعۃ للملوک: ۱۰۶۹۔
[2] مسلم، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ح: ۸۶۵۔