کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 132
ہمیں جمعہ کے دن کی رہنمائی فرمائی، بقیہ نمازوں کے ساتھ جمعہ بھی مکہ شریف میں فرض کر دیا گیا تھا، لیکن مشرکین کی روک ٹوک کی وجہ سے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ قائم کر سکے تھے، لیکن جب کچھ صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر کو حکم فرمایا کہ لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائیں ۔
عبدالرحمن بن کعب (جو اپنے والد کے اندھے ہونے کے بعد ان کا ہاتھ پکڑ کر چلتے تھے) کا بیان ہے کہ میرے والد جب جمعہ کی نما زپڑھتے تھے تو اسعد بن زرارہ کے لیے رحم کی دعا کرتے تھے، میں نے کہا: ابا جان! آپ جب جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ کے لیے رحم کی دعا کرتے ہیں ، انہوں نے کہا: میرے لخت جگر سب سے پہلے انہوں نے ہی ہم لوگوں کو بنو بیاضہ کے باڑے میں جمعہ کے لیے جمع کیا اور ہمارے لیے ایک بکری ذبح کی ہم نے انہی کے پاس کھانا کھایا، میں نے پوچھا، آپ لوگ کتنے آدمی تھے؟ کہا: چالیس۔‘‘ [1]
اسی حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے چالیس آدمیوں کی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں ، حالانکہ اس حدیث سے اس تعداد کی شرط کا قطعی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بات جب جمعہ کی نماز ادا کی گئی تو اس وقت لوگوں کی تعداد چالیس تھی۔ یہ تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خاص طور پر متعین نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ جمعہ کی نماز چالیس سے کم بلکہ بارہ آدمیوں سے کم میں بھی صحیح ہوتی ہے اور یہ سب کی طرف سے ہے۔ لیکن پہلا جمعہ جو اس کے فوراً بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا وہ مدینہ میں بنو عبدالاشہل کی مسجد میں پڑھا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لائے تھے اتفاق سے وہ جمعہ ہی کا دن تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب رضی اللہ عنہ انصاری کے مکان پر اترے اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔
اس کو جمعہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ’’جمع‘‘ سے مشتق ہے۔ اہل اسلام ہفتہ میں ایک
[1] ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، ح: ۱۰۸۲۔