کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 130
صریح نہیں پائی تو اس بدعت کی تائید کے لیے مجبوراً ایک دوسری بدعت خود ہی ایجاد کر ڈالی، یعنی محفل ذکر نعمت کی بدعت ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے پہلے بھی کسی نے اس کا ذکر کیا ہے یا نہیں ۔ پھر دونوں بدعتوں کی تائید میں آیات قرآنی کے معنی کو الٹ پھیر کر دوسرا غلط معنی مراد لیا کہ احتفال نعمت کی بدعت کو احتفال میلاد نبوی کی بدعت کے لیے حجت بنا دے، اس کے لیے اس نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور اپنے مقصود سے ہٹ کر دور دراز چیزوں کا سہارا لیا اور مبہوت و پریشان ہو کر اپنے استدلال کے لیے تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور دلائل کا سہارا لیا جس سے ظاہر ہوا کہ بس اس کے فن کی یہی اتنی حقیر پونجی ہے اس کے نزدیک نہ شریعت کی تعظیم، قرآن کا احترام، نہ حدیث کی توقیر، اس کی پوری کتاب کا یہ حال ہے نہ کہیں وہ حدیث بیان کرتا، نہ حدیث کی اتباع، نہ سنت کا دفاع، نہ اسوۂ حسنہ کی رغبت، بس قرآن سے کھیلتا ہے کہ کسی طرح قرآن سے اس بدعت حسنہ کے لیے کوئی مثال مل جائے جس سے عقل و فہم کے کمزور لوگ دھوکا کھا جائیں ۔ وأذا امتحن الدنیا لبیب تکشفت لہ عن عدو فی لباس صدیق ’’جب کوئی عقل مند دنیا کو جانچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے کتنے دشمن دوست کے لباس میں ہیں ۔‘‘ ۱۵۔ ذکر الٰہی کے لیے خاص دن مقرر کرنے کے لیے ’’انصار مدینہ کا مطالبہ ‘‘ کے قصہ پر تفصیلی بحث: صاحب رسالہ نے کہا: ’’ہمارے پاس ایک دوسری مدنی انصاری دلیل بھی ہے، جسے امام السنہ احمد بن حنبل نے نقل فرمایا ہے اور ان سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے روایت کی ہے۔ امام احمد نے فرمایا: ’’روایات سے ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل انصار کہا کرتے تھے، اگر ہم اس بات پر غور کرتے کہ کسی دن جمع ہو کر اس