کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 129
بدعت ضلالت ہے اور ضلالت کا انجام جہنم ہے۔ نیز مصنف رسالہ اس بدعت سے دوسری بدعت کی طرف فرار کر رہا ہے جو پہلی بدعت سے بھی زیادہ خراب ہے اور وہ بدعت ’’محفل ذکر نعمت‘‘ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی گرمی سے بچنے کے لیے آگ کی پناہ لے، کیونکہ محض ذکر نعمت کے انعقاد کو محفل میلاد کے انعقاد کی دلیل بنانا نص اور قیاس دونوں اعتبار سے فاسد استدلال ہے اور جو شخص بھی اس دلیل سے استدلال کرے گا وہ کبھی ہر گز اس کو سنت یا بدعت حسنہ نہیں کہہ سکتا، اور ہمارے لیے تو اس کی یہ شہادت ہی کافی ہے کہ اس نے میلاد نبوی کی محفل کے انعقاد کے بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں پیش کی ہے، اس کا حال تو اس عورت کی طرح ہے جس نے اپنا سوت کات کر خود ہی نوچ ڈالا۔ جس کا انجام یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا ہے اور اندھی اونٹنی کی طرح بھٹک رہا ہے۔ ایک جید عالم اور با بصیرت مفکر دلائل منقولہ و معقولہ ہی سے استدلال کرتا ہے جس کی صحت کے علماء اسلام بھی گواہ ہوتے ہیں ، کیونکہ ایسی باتیں دل میں اثر کرتی ہیں اور قبولیت کے لائق ہوتی ہیں اور علماء سنت کے ذریعہ بدعت کے خلاف جنگ کرتے ہیں ، لیکن جو قول صحت کے معیار سے خارج ہو تو ہر شخص اس کو رَد کر دے گا، لہٰذا بدعت سے بدعت کے لیے استدلال کرنا مٹی کو مزید گیلا کرنا ہے۔ واذا شتشفیت من داء بداء فاکثر ما أعلکَ ما شفاک ’’جب تم کسی بیماری سے بیماری کا علاج کرو گے، تو جتنا بھی کرو جس چیز سے تم بیمار ہوئے وہ تمہیں شفا نہیں دے گی۔‘‘ جب سمجھ بری ہوئی تو نتیجہ بھی برا ہوگا اور جب نتیجہ برا ہوا تو مقصد بھی برا ہوگا۔ اللہ اس مصنف کو ہدایت دے جب اس نے میلاد نبوی کے مسنون ہونے کی بحث شروع کی اور اس کو ’’بدعت حسنہ‘‘ قرار دے دیا، لیکن اس کی تائید میں کوئی واضح دلیل اور نص