کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 127
ہیں ، آپ ہم میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہو یا اس میں سے کچھ جملہ کہو شیطان تم کو بہکانے نہ پائے میں محمد اللہ کا بندہ اور اس کارسول ہوں ۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ کو میرے مرتبہ سے بڑھاؤ ، جہاں اللہ نے مجھے رکھا ہے، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق اگلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں اور مخلوق خدا میں سب سے افضل ہیں ، پھر بھی فرمایا: ’’مجھے انبیاء پر فضیلت مت دو۔‘‘ یہ سب احتیاط اس لیے برتی گئی کہ اصل دین محفوظ رہ جائے اور لوگ آپ کی محبت میں نفس کے بہکاوے میں آ کر غلو نہ کرنے لگ جائیں ، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے۔ ’’غلو سے بچو تم سے پہلے والے لوگ غلو ہی سے ہلاک ہوئے ہیں ۔‘‘ اور انبیاء کی محبت میں غلو کے باعث لوگ ان کی قبریں پوجنے لگ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آپ کی زندگی میں پوری طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منطبق تھا۔ اب یہی حکم وفات کے بعد بھی باقی رہے گا، اس لیے کہ جس بات کو آپ نے اپنی زندگی میں ناپسند فرمایا وہ آپ کی وفات کے بعد بھی نا پسند رہے گی، حتیٰ کہ علماء نے آپ کی قبر کے پاس آواز بلند کرنے کو بھی مکروہ کہا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مصنف نے شوقی کی تعریف میں بڑا مبالغہ کیا ہے کہ اس نے آپ کی شان میں مبالغہ آمیز اشعار کہے، لیکن حکم رسول کے سامنے کسی کے قول کی حاجت نہیں ، جب اللہ کی طرف سے سیلاب عظیم آ گیا تو معقل کی نہر کا کام کیا، صاحب رسالہ کہتا ہے: ’’کوئی معترض یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اب تک تم نے جو دلائل پیش کیے، ان میں محفل میلاد نبوی کی مشروعیت کی کوئی واضح دلیل نہیں کیونکہ ہم کہیں گے کہ یہ اعتراض نعمت الٰہی کے لیے انعقاد محفل اور اس پر قیاس کر کے میلاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشروعیت کی تردید کے لیے کافی و مناسب نہیں ہے۔‘‘ ہمارا جواب یہ ہے کہ مخلوقات کے بارے میں اللہ کی عادت یہ ہے کہ جو شخص کوئی راز یا عقیدہ چھپاتا ہے تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے عمل و عقیدہ کے راز کو اپنے خطاب اور کتاب کے