کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 126
اللّٰہَ، قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی)) [1] ’’میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے سوائے اس کے جو انکار کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، منکر کون ہے؟ آپ نے فرمایا، جو میری اطاعت کرے گا جنت میں جائے گا اور جو میری نافرمانی کرے گا وہ منکر ہوا۔‘‘ نیز آپ نے حکم فرمایا کہ اللہ کی عبادت اُس کے مشروع طریقہ سے کی جائے، استحسان اور بدعات کے ذریعہ بندگی نہ کی جائے، اللہ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ﴾ (ص: ۸۶) ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں اس قرآن پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں ہوں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ اور شان نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں شوقی وغیرہ شعراء کے مبالغہ آمیز اشعار پڑھے جائیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، آپ کا ارشاد ہے: ((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ، اِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا، عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ۔))[2] ’’مجھے میرے مرتبہ سے مت بڑھاؤ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘ ’’اطراء‘‘کہتے ہیں مدح و تعریف میں حد سے گزر جانا، ہم نے اس سے پہلے عبداللہ بن الشخیر کا قول پیش کیا ہے کہ جب وہ بنی عامر کے وفد کے ساتھ تشریف لائے تھے تو حضور کو اس طرح خطاب کیا تھا: ((انت سیّدنا انت افضلنا۔)) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سردار
[1] بخاری، باب القتداء بسنن رسول، ح: ۷۲۸۰۔ [2] بخاری ، باب واذکر فی الکتاب، ح: ۳۴۴۵۔