کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 125
یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo﴾ (آل عمران: ۱۶۴) ’’بے شک اللہ نے مومنوں پر احسان کیا ہے کہ انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو صاف کر دیتا ہے، اور ان کو کتاب و دانائی کی تعلیم دیتے ہیں اور اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت پہنچائی، امانت ادا کی اور امت کی خیر خواہی فرمائی، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن مال غنیمت تقسیم فرمایا اور نو مسلموں کو ایک ایک سو اونٹ عطا فرمایا تو انصاری صحابہ نے اس کو دل میں بہت محسوس کیا اور کہنے لگے: آپ مال غنیمت کا ہمارا حق صرف سرداران عرب کو دے رہے ہیں اور ہم کو نظر انداز فرما رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی بات سنی تو اُن کو جمع کیا اور فرمایا: ’’انصاری بھائیو! سوچو کیا تم گمراہ نہیں تھے اور اللہ نے میرے سبب تم کو ہدایت دی اور کیا تم فقیر نہیں تھے لیکن اللہ نے میرے سبب تم کو مالدار بنایا، کیا تم متفرق نہیں تھے لیکن اللہ نے میرے سبب تم کو متحد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جملے پر انصار کہتے جاتے تھے اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے خوش نہیں کہ سب لوگ تو مال لے کر اپنے گھر واپس جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر واپس جاؤ، سب نے بیک آواز جواب دیا، ہم خوش ہیں ، ہم خوش ہیں ، اس ہدایت پر مزید بحث آئندہ بھی آ رہی ہے۔ ان شاء اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہدایت و دعوت پر امت سے کوئی صلہ نہیں مانگا، نہ ہی اپنے عمل کا کوئی بدلہ ان سے طلب کیا بلکہ ان کو صرف دعا اور اپنے اوپر کثرت سے صلوٰۃ وسلام بھیجنے اور اپنی اتباع کا حکم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی کی جائے اور منع کی ہوئی باتوں سے اجتناب کیا جائے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((کُلُّ اُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ اَبٰی قِیْلَ وَ مَنْ اَبٰی یَا رَسُوْلَ