کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 120
’’وہ کچھ دن انتہائی غور و فکر سے کام کرتا رہا اور بڑی محنت کے بعد پانی کو پانی سے تشبیہ دیا۔‘‘ نیز صاحب رسالہ نے کہا: ’’بہت سے علماء حفاظ اور فقہائے اسلام و اصحاب سیرت نے میلاد النبی کی بابت لکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن مراتب اور برکات کا ذکر کیا ہے جن کی ہر اس شخص کو ضرورت ہے جو اس میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر سکتا ہو۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لکھنا صحیح ہے لیکن وہ اس حق سے اپنے باطل دعویٰ کو ثابت کرنا چاہتا ہے، اس لیے کہ جو شخص بھی باطل دعوت پیش کرتا ہے وہ اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے پہلے ایسی حق باتیں بیان کرتا ہے جس کے پردے میں اس کی دعوت کا بطلان چھپ جائے اور اس حق کی وجہ سے اس کی باطل دعوت کو بھی قبولیت حاصل ہو جائے کیونکہ صرف باطل دعوت تو لوگ قبول نہیں کر سکتے، اسی وقت قبول کریں گے جب وہ حق کے ساتھ خلط ملط ہو۔ اس بارے میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo﴾ (آل عمران: ۷۱) ’’اے اہل کتاب کیوں حق کو باطل کے ساتھ ملاتے ہو اور جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہو۔‘‘ حق کو باطل کے ساتھ ملانے کا مطلب یہ ہے کہ حق کے پردے میں باطل کو اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ لوگوں پر ظاہر ہو کہ یہ حق ہے، حالانکہ فی الحقیقت وہ باطل ہے اور اس خلط ملط کا آخری نتیجہ حق کو چھپانا اور اس کو بیان نہ کرنا ہے، کیونکہ باطل پرست خوب جانتا ہے کہ اگر حق کو بیان کر دیا جائے تو باطل پھیلانے کا مقصد ہی حاصل نہ ہوگا اور یہ سب باتیں اس رسالے کے مصنف پر اچھی طرح صادق ہوتی ہیں اگرچہ خود کو اس نے امام العلامہ لکھا ہے، لیکن اللہ کا یہ ارشاد اُس پر پوری طرح صادق آتا ہے: