کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 117
کی اتباع ہی کی بناء پر ہلاک ہوئے تھے۔ اس طرح کہ انہوں نے اس آثار کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔ تو آپ نے اس درخت کے کاٹنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ کاٹ دیا گیا اور یہ اس کے ساتھ آپ کا آخری معاملہ تھا۔ اللہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے اگر انہوں نے اس درخت کو اسی حالت پر چھوڑ دیا ہوتا تو وہ محبت رسول کے دعویٰ کے ساتھ بت بنا کر پوجا جانے لگتا۔ جیسے اب لوگوں نے حب رسول کے نام پر محفل میلاد اور محفل معراج کی بدعت جاری کر دی ہے اور تمام بدعات مثلاً میلاد النبی کی بدعت وغیرہ شروع میں چند آدمیوں سے ہی شروع ہوتی ہے پھر جماعت اور گروہ کے ساتھ مشہور ہو کر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہونے لگتی ہے کیونکہ لوگ بھلائی اور برائی میں ایک دوسرے کو تقلید کرتے ہیں اور باطل کی قبولیت کا جذبہ لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ دل اُن کو بہت جلد پسند کر لیتے ہیں اور کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے، اور جہنم خواہشات سے گھیر دی گئی ہے اور جنت ناگوار باتوں سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بدعات کو دین میں دخل ہونے سے روکنے والے تھے کیونکہ ہر بدعت جو ایجاد کی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت پر معمول کے مطابق عمل کرنا بدعت پر جدوجہد کرنے سے بہتر ہے۔ اسی قسم کی وہ بدعت ہے جس کو دارمی(ح: ۲۱۰) نے حضرت عمر بن یحییٰ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میرے دادا کا بیان ہے کہ ہم لوگ فجر کی نماز سے پہلے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے جمع ہو جاتے تھے، جب وہ مسجد کے لیے گھر سے نکلتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے تھے۔ ایک دن ابوموسیٰ اشعری نے کہا، اے ابو عبدالرحمن! میں نے مسجد میں ایک نا پسندیدہ بات دیکھی ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: آپ بھی اس کو دیکھ ہی لیں گے۔ ابو موسیٰ نے کہا: میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ باندھ کر بیٹھے ہوئے دیکھا، ہر حلقہ میں ایک شخص معین ہے اور سب کے ہاتھ میں ایک ایک کنکری ہے۔ یہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر کہو تو وہ سو مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں ۔ یہ شخص کہتا ہے کہ سو مرتبہ لا الہ الا اللّٰہ کہو تو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللّٰہ کہتے ہیں ۔ یہ شخص کہتا ہے کہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہتے ہیں ۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ