کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 116
۸۔ انبیاء اور صالحین کے بارے میں غلو ہی سے شرک پھیلا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! اے ہم میں سب سے بہتر، اے ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! اے ہمارے سیّد! اے ہمارے سیّد کے بیٹے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں اپنے کچھ جملے کہو، اور شیطان تم کو بھٹکا نہ دے، میں محمد ہوں ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول، اور پسند نہیں کرتا کہ مجھے میرے مرتبہ سے اوپر اٹھاؤ جہاں اللہ عزوجل نے مجھے رکھا ہے۔[1] ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ﴾ (الممتحنہ: ۶) ’’بے شک تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ ۹۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ بدعات کے مخالف اور دین کے محافظ تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی سرحد کی حفاظت کی اور مدحیہ اشعار و خطاب کے ذریعہ اپنے بارے میں غلو کے راستوں کو بند کر دیا، کیونکہ مدح میں مبالغہ آرائی آپ کی سنت نہیں بلکہ اس سے شدید ممانعت ثابت ہے، اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے بعد دین کی بھر پور حمایت کی اور بدعت کے راستوں کو بند کیا۔ کیونکہ بدعات شرک کی پیامبر ہیں اور لوگوں میں شرک سب سے پہلے انبیاء و صالحین کے بارے میں غلو کے سبب داخل ہوا۔ یہاں تک کہ ان کی قبروں کو بت بنا کر لوگ پوجنے لگے، اور جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ایک درخت کی طرف الگ الگ اور جماعت کے ساتھ جا رہے ہیں تو پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ لوگ اس درخت کے پاس جا رہے ہیں جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی تھی۔ یہ وہاں جا کر نماز پڑھتے ہیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس درخت کو کاٹ ڈالو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کے آثار
[1] سنن النسائی بسند جید، ح: ۳۷۴۴۔