کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 114
بدعت ہے، اور بدعت کی یہ تعریف محفل میلاد یا محفل معراج یا محفل نعمت پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ اس بدعت کو قوت اور رواج دینے والے عام طور پر کم فہم اور کم عقل علماء ہیں ، جن سے عوام دھوکا کھا کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ، اور جب وہ پابندی کے ساتھ ان بدعات کو ان کے مقرر دنوں میں کرتے ہیں تو لوگ ان بدعات کی فضیلت اور فرضیت کے قائل ہو جاتے ہیں ، اور عامی تو عمیٰ سے مشتق ہی ہے، یعنی عقل و بصیرت کا اندھا، اور کہا گیا ہے تباہی ہو عام علمائے سُوء کے لیے۔ حضرت علی بن ابی طالب نے عوام کی بابت کہا: ’’اکثر لوگ بے وقوف، ہر پکارنے والے کے پیچھے بھاگنے والے، ہر شور کرنے والے کے ساتھ لگ جانے والے ہیں ، علم کے نور سے بے بہرہ اور دین کے کسی مضبوط رکن سے فیض یاب نہیں ہیں ۔ چھوڑی ہوئی آزاد اونٹنیاں ان سے زیادہ مشابہت رکھتی ہیں ۔ لیکن زمین ان لوگوں سے خالی نہیں ہے جو اللہ کے لیے اس کی حجت لے کر کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اللہ کی حجتیں اس کے بندوں پر باطل نہ ہو جائیں ، ایسے لوگ عدد میں بہت کم لیکن اللہ کے نزدیک مرتبہ میں بہت بڑے ہیں ۔ اللہ انہی کے ذریعے سے اپنے بندوں پر اپنی حجتیں پوری کرتا ہے، تاکہ وہ اپنے ہم جنسوں تک اسے پہنچا دیں اور اپنے جیسوں کے دلوں میں اس کو راسخ کر دیں ۔ لوگوں نے عالم کی غلطی کو جہاز کے ڈوبنے سے تشبیہ دی ہے، جس کے ڈوبنے سے بہت سے لوگ ڈوب جاتے ہیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی راہ اور ضلالت کے راستوں کی تشریح فرما دی ہے کہ ضلالت کے ہر راستے پر ایک شیطان، بیٹھا ہوا بدعت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہتا ہے، اور امام احمد اور نسائی نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور کہا یہ اللہ کا راستہ ہے اور پھر اس کے دائیں بائیں بہت سی لکیریں کھینچی اور فرمایا ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان بیٹھا ہوا ہے، اور آپ نے آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام: ۱۵۳)