کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 112
میں استعمال کرے، نہ یہ کہ اس قسم کی عجیب و غریب دلیلوں کا سہارا لے کر لوگوں کو بدعات کی طرف راغب کرے۔ بدعت چاہے جس قسم کی ہو، اس کا مزاج ظلم اور برائی ہے اور اندھی تقلید کے ذریعہ اور چھوت چھات کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیل جانا ہے، اس طرح کہ اسے اچھا سمجھ کر پہلے چند افراد شروع کرتے ہیں ، پھر جماعتوں کے ہاتھ لگ کر بد سے بدتر شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس کی انتہاء ابتدا سے بدتر ہوتی ہے، اور اس کی پیدائش کا ہر سال پہلے سال سے بدتر ہی ہوتا ہے اور ایک بدعت سے دوسری بدعات جنم لیتی ہیں اور ہر بدعت اپنے سے زیادہ بدتر بدعت کو جنم دیتی ہے۔ جیسا کہ اس رسالے کے کاتب نے کیا کہ ازراہ تعصب اس نے محفل میلاد نبوی کی بدعت کی تائید میں اس نے ایک نئی بدعت ’’محفل ذکر نعمت‘‘ ایجاد کی، جس کا اس سے پہلے کوئی قائل نہیں ، اور اس بدعت کے اثبات کے لیے اس نے قرآن کی تحریف اور لا طائل دلائل سے اس کی تائید کی کوشش کی، اور علماء کا بیان ہے کہ ’’جب کوئی بدعت ظاہری ہوتی ہے تو اس کے مقابلے میں ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا کسی سنت کا مضبوط پکڑنا بدعت کے ایجاد سے بہتر ہے، اور جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’سب سے زیادہ جو چیز اسلام کو بگاڑتی ہے وہ عالم کی لغزش اور قرآن سے منافق کی بحث اور گمراہ آئمہ کا فیصلہ ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ علماء صالحین کے ذریعہ ان ملحدین کے ضرر اور باطل پرستوں کے دلائل کا قلع قمع نہ کراتا تو دین فاسد ہو جاتا، لیکن اللہ نے اپنے فضل و رحمت سے اس دین کے لیے ایسی بنیادی طاقتیں برابر پید اکیں جو اس کی اطاعت میں کام کرتی رہیں اور دین سے غلو کرنے والوں کی تحریف اور باطل پرستوں کا انتساب اور جہلاء کی تاویل کو دور کرتے رہے۔ ‘‘ ۴۔ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا نظام نہ ہو تو بدعت پھیل جاتی ہے: یہ محفل میلاد جس کی تحسین وتائید میں رسالہ کا کاتب مبالغہ آرائی کر رہا ہے، تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ منعقد ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض شہروں