کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 111
جائیں گے اور کسب منفعت، تجارت خرید و فروخت سب اسی محفل نعمت کی نذر ہو جائے گا اور یہ نعمت لوگوں کے لیے عذاب بن جائے گی، بلکہ واجب تو یہ ہے کہ نعمت کے حصول اور عذاب کے دور ہونے کے وقت اللہ کا شکر بجا لایا جائے اور شکر کی نوعیت یہ ہے کہ باطن میں اس کا اعتراف کیا جائے اور ظاہر میں اس کا چرچا کیا جائے اور منعم کی مرضی و خوشی ہی میں اس نعمت کا خرچ کیا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی خوشی کی بات آتی تو آپ شکرانے میں اللہ کے لیے سجدہ کرتے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو صحت و عافیت عطا فرمائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی صحت کو اپنے رب کی اطاعت اور نماز و روزہ اور ان مقاصد کی ادائیگی میں استعمال کرے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے، ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال کرے کہ اس کی روزی کی فراخی اور حلال و مباح کے حصول اور دوسرے جائز دنیاوی کاموں کی مدد میں بھی استعمال ہو، جس سے دنیا کا کچھ نقصان نہ ہوتا ہو، کیونکہ یہ اس کے فرائض میں سے ہے اور اسکی صحت کے عام شکرانہ میں شامل ہے۔ ۲۔ شکر نعمت یہ ہے کہ اس کا اعتراف کیا جائے او ر منعم کی مرضی پر خرچ کیا جائے: اسی طرح اللہ اگر مال کی نعمت عطا فرمائے تو اس کا فرض ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی اور خیر کی راہوں میں اس کو خرچ کرے یہی مال کا شکرانہ ہے، جس سے مال بڑھتا، باقی رہتا اور با برکت ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo﴾ (ابراہیم: ۷) ’’اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر شکر کرو گے تو میں ضرور بڑھاؤں گا اور اگر نا شکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ ۳۔ بدعت وبائی امراض کی طرح پھیلتی ہے: جب اللہ انسان کو علم، ہوشیاری، سوجھ بوجھ اور معرفت عطا کرے تو اس کا فرض ہے کہ اس علم کو سنت کے اتباع اور بدعت سے اجتناب اور عوام کو فائدہ پہنچانے والی دوسری راہوں