کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 108
زیادہ ترقی یافتہ تھیں ۔ مسلمان جو میدان جنگ میں بے خطر کود پڑے تھے اور کسی بڑے سے بڑے خطرہ کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ وہ قضاء وقدر پر صحیح طور پر ایمان رکھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ کوئی نفس اپنا رزق پورا کیے بغیر نہیں مرتا۔ اس اعتقاد نے ان کے قدم جماد یے تھے حالانکہ دشمن کے لشکروں کا یہ حال تھا کہ ان کی کثرت سے فضاء بھر گئی تھی اور زمین و آسمان ان کی کثافتوں سے غبار آلود ہو گئے تھے۔ ان کو مسلمانوں نے اپنی قوتِ ایمانی سے ہٹا دیا اور اس کے بعد تمام مالک میں توحید اور اصلاح و سعادت کا پیغام پہنچایا۔ وہ اس زمرہ میں شامل تھے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ﴾ (الحج: ۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ((سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o))