کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 107
بدلہ ملے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوئے تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برے ہوئے تو برا بدلہ ملے گا۔ یہ اعتقاد جب مومن کے دل میں راسخ ہو جاتا ہے تو وہ موت سے کبھی نہیں ڈرتا اور موت کے آ جانے پر گھبراتا نہیں ہے کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کے لیے دوسرا گھر ہے جو اس کے دنیا کے گھر کے مقابلے میں بلند مرتبہ اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور وہاں کا عیش و آرام دنیا کے عیش و آرام کے مقابلہ میں بہتر اور وافر ہے۔ جس شخص کے خیالات یہ ہوں وہ دنیا کی جدائی سے کبھی نہیں گھبرائے گا۔ پھر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ موت کا مطلب فنا ہونا نہیں ہے بلکہ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہو جانا ہے تاکہ بروں کو برے اعمال اور نیکو کاروں کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے۔ لہٰذا موت سے وہی شخص ڈرتا ہے جس نے آخرت کے لیے نیکی کا اہتمام نہ کیا ہو۔ ایسا شخص اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ زندگی تو بس دنیا ہی کی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں ۔ ایسا شخص جب دنیا سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے تو اس پر موت کی بے ہوشی، دنیا کے فراق کی حسرت اور آئندہ زندگی کی ہبیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے لیکن یہ ندامت کس کام کی۔ وہ کہتا ہے کہ کاش کہ میں نے اپنی (آئندہ) زندگی کے لیے کچھ سامان کیا ہوتا! مسلمان اپنے عقیدہ کی صحت کی وجہ سے پہلی تین صدیوں میں جب کہ ان کی سر گرمیوں کا آغاز ہوا تھا، اپنی بے مثال شجاعت، استقلال اور ایمان راسخ کے ساتھ آگے بڑھے دنیا کے مشرق و مغرب میں دور دور کے ممالک تک انہوں نے پیش قدمی کی۔ ان کی ہاتھ میں قرآن تھا جس کی بدولت انہیں فتح حاصل ہوئی تھی اور وہ قیامت کے منصب پر فائز ہو گئے تھے۔ وہ لوگوں کو قرآن پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ یہی وہ سب سے بڑا سبب تھا ان کی بیداری، فتح مندی اور قیادت کا اور یہی راز ہے ان کے بام عروج پر پہنچنے کا، حتیٰ کہ وہ نہایت مختصر مدت میں اس قابل ہو گئے کہ قیصرو کسریٰ کے تخت ان کے قبضہ میں آ گئے۔ حالانکہ یہ قومیں طاقت و تمدن، نظام حکومت، عددی قوت اور سروسامان کے لحاظ سے سب سے