کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 106
ہیں ۔ البتہ اس زمانہ میں عرب نوجوانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں ۔ جنہوں نے دین سے انحراف اور سرکشی کی راہ اختیار کی ہے۔ وہ واجبات کو ترک کرنے کے معاملہ میں تقدیر کا سہارا لیتے ہیں ۔ اگر انہیں برے کام سے روکا جائے تو کہتے ہیں اللہ نے یہ میرے مقدر میں لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے عجز کا نام توکل اور اپنے کفر اور بد عملی کا نام قضاء و قدر رکھ لیا ہے۔ بعض ملحد کہتے ہیں گناہ تو در حقیقت وہ ہے جس نے ابلیس کو پیدا کیا مگر گناہ ویسا نہیں ہے۔ مسلمان ایسے لوگوں کو ملحد کہتے ہیں وہ ہر گز مسلمان نہیں ہیں۔ قضاء وقدر پر صحیح اعتقاد کے نتیجہ میں صحیح افعال صادر ہونے اور اچھے اوصاف پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ مثلاً خرچ کرنے میں فراخ دلی، صدقہ و خیرات، جرأت مندی، دلیری، شجاعت وغیرہ۔ ایسا شخص راہ حق میں دین و وطن کی حمایت میں خطرات مول لینے پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے اور اپنے متعلقین کو تسلی دیتا ہے : ﴿قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’کہو ہمیں وہی پیش آیا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہ ہمارا مولا ہے اور اہل ایمان کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘ یہ اعقاد انسان میں اعلیٰ اوصاف پیدا کرتا ہے مثلاً بلند اخلاق پر جمے رہنے کا وصف، نا پسندیدہ باتوں پر تحمل، شدید خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ وغیرہ۔ نیز وہ سخاوت و فیاضی سے آراستہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرے گا اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ضرور اسے ملے گا۔ اسی طرح یہ اعتقاد کہ اسے راہِ حق میں جان قربان کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور دنیا اور اس کی زینت سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان وہ ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہو اور اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ مخلوق کی پیشانیاں بندوں کے رب کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جس طرح چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ سب کچھ اس کی ملکیت ہے۔ اس نے جو لیا وہ اسی کا تھا اور جو کچھ دیا ہے وہ بھی اسی کا ہے۔ دنیا صرف عارضی فائدہ کی جگہ ہے جس سے دنیا والے تھوڑے عرصہ کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں پھر یہ فائدہ کی جگہ ختم ہو جاتی ہے لیکن آخرت ہمیشگی کا گھر ہے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا