کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 105
’’ان سے کہو، عمل کرو۔ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان تمہارے عمل کو دیکھیں گے اور تم عنقریب غائب و حاضر کے جاننے والے کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ پھر وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔‘‘ مسلمان اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو انہیں قوت اور اختیار فرمایا ہے اس کا حساب ان سے لیا جائے گا۔ جن باتوں کے کرنے کا حکم اس نے دیا ہے اور جن باتوں سے روکا ہے ان کی بجا آوری کا اُن سے مطالبہ ہے۔ اگر انہوں نے نیک روی اختیار کی تو یہ ان کے لیے مفید ہوگا اور اگر برا طرزِ عمل اختیار کیا تو اس کا نقصان بھی اُن ہی کو اُٹھانا پڑے گا۔ وہ ہر اُس شخص کو قابل ملامت اور قابل مذمت سمجھتے ہیں جو کسی واجب کے ترک کرنے یا کسی حرام کے ارتکاب کے لیے تقدیر کو دلیل بنائے۔ یہ دلیل بے وزن ہے اور عنداللہ باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہدایت کی ہے کہ وہ عقل و حزم سے کام لیں ، تمام دینی و دنیوی امور میں اولوالعزم لوگوں کے طریقہ کو اختیار کریں ، احتیاط برتیں ، اپنے دشمنوں کے خلاف طاقت فراہم کریں اور ممکنہ تدابیر سے کام لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجز و کسل سے منع فرمایا ہے اور بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں پر ملامت کرتا ہے۔ اسی طرح وقت ضرورت دوا استعمال کرنے کی بھی ہدایت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے لہٰذا دوا ستعمال کرو لیکن حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی عمل کے معاملہ میں قضاء و قدر پر بھروسا کر کے بیٹھ جانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ عمل کرو کیونکہ ہر شخص کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ یہ ہے شرعی ذمہ داری کی اصل وجہ اور حکمت عدل اور مصلحت کی تکمیل اسی کے ذریعہ ہوتی ہے اور اسی پر مسلمانوں کے عقیدہ کا دارو مدار ہے۔ کسی کا قول ہے: ’’عقلمند اپنے نفس کا مخالف ہوتا ہے اور جاہل تقدیر الٰہی کا۔‘‘ رہا جبر کا عقیدہ جس کے پیش نظر لوگ فرائض کو ترک کرنے اور محرمات کا ارتکاب کرنے کے لیے قضاء وقدر کو حیلہ بناتے تھے تو اس قسم کا عقیدہ رکھنے والے بہت زمانہ پہلے ختم ہو چکے