کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 104
کوئی طاقت ہے اور نہ اختیار اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک قوت جابرہ اور قدرت قاہرہ کی کارفرمائی کا نتیجہ ہے۔ اس عقیدہ کے نتیجہ میں اگر ان کی قوتیں معطل ہو گئی ہوں اللہ کی عطا کردہ قوتوں اور صلاحیتوں سے اگر وہ فائدہ نہ اٹھا رہے ہوں ان کے اندر سعی و جہد اور کسب و محنت کے لیے اگر کوئی محرک نہ رہا ہو اور ان کا وجود اگر عدم کے برابر رہ گیا ہو، عزت و قوت اگر ان کے ہاتھ سے چھین لی گئی ہو اور اگر ان پر کمزوری اور ذلت کا غلبہ ہو گیا ہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ غرض اس عقیدہ ہی کو مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب قرار دیتے ہیں ۔ یہ ہے مسلمانوں کے بارے میں کافروں کا تصور۔ اس تصور کی تائید وہ کم عقل عرب کر رہے ہیں جو نصاریٰ کی تقلید کے شائق ہیں اور ان کی باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ وہ ان ہی کی سی باتیں کرتے ہیں اور سایہ کی طرح ان کے پیچھے چلتے رہتے ہیں ۔ درحقیقت وہ اللہ اور اس کے بندوں کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر رہے ہیں کیونکہ آج کے زمانہ میں کوئی صحیح العقیدہ مسلمان ایسا نہیں پایا جاتا جو جبر محض کا قائل ہو اور اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ وہ یا دوسرے لوگ بے اختیار ہیں ۔ اگر کوئی ایسا مسلمان ہے تو اس کا شمار دیوانوں میں کیا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے آج تک مسلمانوں کے تمام فرقے یہ اعتقاد رکھتے چلے آئے ہیں کہ انسان قدرت و اختیار رکھتا ہے اور اس کی قدرت اس کی تقدیر پر قوتوں اور طبیعتوں کی تاثیر کے مطابق اثر انداز ہوتی ہے جسے کسب و اختیار کہا جاتا ہے اور یہی شرعی ذمہ داری کی اصل بنیاد ہے جس پر جزا و سزا جنت کی کامیابی اور جہنم سے نجات کا معاملہ موقوف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ فِیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۱۰۵)