کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 103
’’ان سے کہو، عمل کرو۔ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان تمہارے عمل کو دیکھیں گے اور تم عنقریب غائب و حاضر کے جاننے والے کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ پھر وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نیکو کار کو اس کی نیک روی کا بدلہ دے گا اور بد عمل کو اس کی برائی کا بدلہ دے گا۔ اللہ نے اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔ ﴿وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ فَمَنِ اہْتَدٰی فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَo وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo﴾ (النحل: ۹۲۔۹۳) ’’اور یہ کہ قرآن پڑھ کر سناؤں ۔ اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے اختیار کرے گا اور جو گمراہی اختیار کرے گا اس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبر دار کرنے والا ہوں ، اور کہو حمداللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم انہیں پہچان لو گے اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ ۱۸۔ عقیدۂ قضاء و قدر کے بارے میں نصاریٰ کا مسلمانوں پر اعتراض: عقیدہ قضاء و قدر کے بارے میں نصاریٰ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہت سے اُلٹے سیدھے اعتراضات وارد کیے ہیں جو اُن کی بدگمانیوں کا نتیجہ ہیں ، کیونکہ انہوں نے اس مسئلہ کو حدود الٰہی کے اندر رکھ کر اور اس حقیقت کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی جس پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنے عقیدۂ قضاء وقدر ہی کی وجہ سے فقرو فاقہ میں مبتلا ہیں اور جنگی و سیاسی لحاظ سے تمام قوموں سے پیچھے ہیں ۔ ان کے خیال میں مسلمان عقیدۂ جبر کو مانتے ہیں ۔ یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ انسان اپنے تمام افعال میں مجبور محض ہے۔ وہ اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ مسلمان اپنے کو معلق کی طرح خیال کرتے ہیں جسے ہوائیں جدھر چاہتی ہیں اُلٹ پلٹ کر دیتی ہیں ۔ ان کے پاس نہ