کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 102
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوا استعمال کرتے تھے اور اپنے گھر والوں اور صحابہ میں سے جو بیماری میں مبتلا ہوتے انہیں دوا استعمال کرنے کی ہدایت کرتے اور فرماتے: ((عِبَادَ اللّٰہِ تَدَاوُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَضَعْ مِنْ دَائٍ اِلَّا وَضَعَ لَہٗ شِفَائً۔)) [1] ’’اللہ کے بندو! دوا استعمال کرو کیونکہ اللہ نے کوئی مرض ایسا نہیں پیدا کیا جس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔‘‘ لہٰذا مباح دوا کو استعمال کرنا اور اپنے بچاؤ کے سلسلہ میں مفید تدابیر اختیار کرنا توحید کا اثبات کرنے کے مترادف ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اسباب کو اختیار کرنے کی مذمت کرنا شریعت پر اعتراض کرنا ہے اور اسباب سے اعراض کرنا عقل کی خرابی ہے کیونکہ اللہ کے رسول نے امت کے لیے جس بات کو بھی مشروع کیا ہے اور جس چیز کا بھی حکم دیا ہے وہ دین میں داخل ہے اور اس کی اتباع واجب ہے۔‘‘ وعاجز الرأی مضیاع لفرصتہ حتّٰی اذا فات امرعاتب القدرا ’’جو شخص عقل سے کام نہیں لیتا وہ وقت ضائع کرتا ہے، اور جب موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو تقدیر کو ملامت کرنے لگتا ہے۔‘‘ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ﴿وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ فِیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۱۰۵)
[1] ابوداؤد، باب فی الرجل یتدوٰی ، ح: ۳۸۵۸۔