کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 100
جو ہم اختیار کرتے ہیں کیا ان سے تقدیر الٰہی ٹلتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بھی تقدیر الٰہی میں شامل ہے جو شخص اپنے بھائی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ ضرور پہنچائے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب اور نتائج دونوں کو پیدا کیا ہے اور ایک چیز کو دوسرے کا سبب بنایا ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’علاج کرو لیکن حرام چیز کے ذریعے سے نہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَنْزِلْ مِنْ دَائٍ اِلَّا وَ لَہٗ دَوَائٌ عَلِمَہٗ مَنْ عَلِمَہٗ وَ جَہَلَہٗ مَنْ جَہَلَہٗ اِلَّا الْمَوْتُ۔))[1] ’’اللہ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کی دوا نہ پیدا کی ہو بجز موت کے۔ جس کو (اس دوا کا) علم ہوا ہوا اور جس کو نہیں ہوا نہیں ہوا۔‘‘ کسی شاعر نے کہا ہے: ما انت با السبب الضعیف وانما نجح الامور بقوۃ الاسباب ’’اسباب کو اختیار کر کے تم کمزور نہ ہو گے کیونکہ اسباب ہی کی طاقت سے کام انجام پاتے ہیں ۔‘‘ ۱۶۔ تقدیر پر بھروسا کر کے بیٹھ جانا انسان کے لیے سب سے زیادہ مضر ہے: کہتے ہیں لوگ اپنے ناکارہ پن کو توکل کا نام دیتے ہیں اور اپنی بد عملی کو قضاء و قدر پر محمول کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اکثر ترکِ نماز پر گرفت کی جائے یا انہیں نشہ آور چیزیں پینے سے منع کیا جائے تو وہ یہ عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے مقدر میں لکھا ہے کسی کا قول ہے: ’’فرائض ترک کرنے پر قدری بن جاتا ہوں اور کفر و منکرات کے ارتکاب پر
[1] مسند احمد: ۱/ ۴۵۳، ح: ۴۳۳۴۔