کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 10
آل ثانی کے ساتھ حج کے لیے مکہ تشریف لائے، اور ملک عبدالعزیز آل سعود سے کہا کہ ہمیں قطر میں قضاء اور افتاء کے لیے ایک جید عالم کی ضرورت ہے، کیونکہ شیخ محمدبن عبدالعزیز المانع کے قطر سے چلے آنے کے بعد وہاں کوئی قاضی نہیں تھا، چنانچہ شیخ ابن مانع کے اشارہ اور سب کے مشورہ سے قاضی قطر کے منصب کے لیے شیخ عبداللہ بن زید المحمود کا انتخاب ہوا اور ملک عبدالعزیز کی طرف سے سرکاری حکم جاری ہوا کہ آپ حاکم قطر اور ان کے بیٹے کے ساتھ قطر تشریف لے جائیں ۔ اس طرح ۱۵ ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ سے آپ باقاعدہ قطر کے منصب قضاء پر فائز ہوئے۔ مقدمات میں انصاف اور دعویداروں کی راحت رسانی کے لیے آپ خاص طور پر مشہور ہیں ۔ رات اور دن کے کسی حصہ میں آپ فتویٰ پوچھنے والوں اور فیصلہ چاہنے والوں کو واپس نہیں کرتے، دن نکلتے ہی علی الصباح مجلس قضا میں بیٹھ جایا کرتے ہیں ، کبھی کسی کو مجلس میں آنے سے روکا نہیں ، آپ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ، لوگوں کو روکنے یا پابندیوں اور اصول کے ساتھ مجلس میں داخل کرنے کے لیے پولیس کی مداخلت کو آپ نے کبھی پسند نہیں کیا، حالانکہ اس کی وجہ سے بعض اوقات جاہل عوام کی طرف سے ناگوار باتوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مگر محض فریقین کی داد رسی اور مسائل پوچھنے والوں کی سہولت و راحت کے لیے آپ نے یہ معمول جاری رکھا ہے جن کا تانتا آپ کے دفتر اور گھر میں دن رات لگا رہتا ہے اور حتیٰ الامکان آپ مقدمات و مسائل کو اسی وقت نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت ہی ناگزیر اسباب و مجبوری ہی کے تحت اُن کو ملتوی کرتے ہیں اور جہاں تک ہو سکتا ہے فریقین کے درمیان ہمیشہ صلح کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حکومت قطر کی ترقی اور اُس کے دفاتر کی تنظیم کے ساتھ ساتھ محرم ۱۳۷۸ھ میں ’’رئاستہ المحاکم الشرعیہ‘‘ قائم کیا گیا، جس کی سربراہی کے منصب پر فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن زید المحمود سرفراز ہوئے، اس وقت اس رئاسہ کے تحت دو محکمہ شریعہ قائم تھے۔ ۱۳۸۰ھ میں آپ نے ’’دائرۃ الاوقاف والترکات‘‘ کی بنیاد ڈالی تاکہ اوقاف اور یتیموں کے مال کی حفاظت و نگرانی کی جائے اور انہیں بڑھایا جائے۔شیخ محمود ہی کو یہ سعادت