کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 35
رکھنا بھی ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جاری کردہ حدود کے اندر رہ کر اعضاء و جوارح سے اس پرعمل کرنا بھی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ(عبودیت وبندگی) اللہ کی محبت و رضا کے جملہ اقوال واعمال ظاہر و باطنہ کو شامل و جامع ہے۔ لہٰذا نماز،روزہ، حج،زکوٰۃ، راست گوئی، ادائیگی امانت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، ایفائے عہد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، کفار ومنافقین سے جہاد، پڑوسی، یتیم، مسکین اور ملکیت کے آدمی(غلام) اور چوپایوں کے ساتھ حسن اخلاق؛ اور دعا، ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ جیسی جملہ اشیاء عبادت ہیں۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی محبت، خشیت الٰہی، انابت الی اللہ، اللہ کے لیے خالص دینداری، اس کے احکام پرصبر، اس کی نعمتوں کا شکرانہ، اس کے فیصلوں پر رضا مندی، اس پر توکل، اس کی رحمت کی امیدوار اس کے عذاب کا خوف وغیرہ جیسی اشیاء بھی اللہ کی عبادت ہیں۔‘‘[1]
عبودیت و بندگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان خودجملہ اعضاء وجوارح، طاقت وقوت، تصرف وعمل اور افکار و شعور کے ساتھ اپنے خالق کے حوالہ کردے۔ نیز اس کایہ مطلب ہے کہ شریعت کا پابند بن جائے اور اسے اپنی ذات، اہل وعیال اور متعلقین ولواحقین میں بحیثیت حکم نافذ کردے، اور اپنی جملہ خواہشات کو پس پشت ڈال دے۔
سید قطب رحمہ اللہ اپنے بلند پایہ ادبی پیرایہ میں عبادت کی حقیقت اس طرح واضح کرتے ہیں :
’’بے شک تب تو عبادت کی حقیقت دو بنیادی چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے:
۱:....اللہ کی عبودیت و بندگی کا مفہوم نفس میں جم جانا، یعنی اس بات کا پختہ شعور ہوجانا کہ یہاں بندہ ہے اور رب ہے، بندہ ہے جو بندگی کر رہا ہے اور رب ہے جس کی بندگی کی جا رہی ہے۔ اور یہاں اس کیفیت اور اس اعتبار کے سوا دیگر
[1] ابن تیمیہ احمد بن عبدالحلیم، العبودیۃ، ص: ۴، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۴۰۱ھـ