کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 33
’’میری تعریف میں تم مبالغہ آرائی نہ کرو جیسا کہ نصاریٰ(عیسائیوں ) نے عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں غلو سے کام لیا، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو۔‘‘
بندگی ہر انسان کا جب تک اس کا دل دھڑکتا اور پلک جھپکتی رہے ایک لازمی وصف ہے، ارشاد ہے:
﴿ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴾ (الحجر: ۹۹)
’’یقین آنے تک تم اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لاتے رہو۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ ’’سالم بن عبداللہ بن عمر کہتے تھے، یقین کا معنیٰ موت ہے۔‘‘[1]
اس آیت اور اس سے ماقبل کی آیت کریمہ میں صوفیاء کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ بندہ ایک مخصوص حالت یا متعین مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے احکام شرعیہ کی پابندی ختم ہوجاتی ہے۔ جب کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اللہ کی عبادت میں ہے۔ تو کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ممکن نہ ہوسکا کسی دوسرے بندہ کے لیے ممکن ہوسکے گا؟
آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان جیسی ضعیف مخلوق کو رب کونین، ساتوں آسمان اور ہفت اقلیم کے رب کی عبودیت و بندگی کی طرف منسوب کر کے عزت وشرف عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ مسلمان خالق کی اس بندگی سے انحراف کر کے غیر بندگی کرتے ہیں، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افراد پر خواہ اپنے گھر کی کال کوٹھڑیوں میں ہوں ایسی بد دعا فرمائی ہے جو انہیں لا محالہ پہنچے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْہَمِ وَعَبْدُ الْخَمِیْصَۃِ، اِنْ اُعْطِیَ
[1] ابن حجر، فتح الباری: ۸، ۳۸۳، مطبوعہ مکتبۃ الریاض الحدثیہ ۱۳۷۹ھ