کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 32
اور واقعۂ معراج میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی باعظمت مقام اور بافضیلت مرتبہ پر پہنچ گئے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى () فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ﴾ (النجم:۸، ۹) ’’پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پھر وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔‘‘ یہ عظیم مرتبہ ہے جس پر نہ کوئی نبی و رسول فائز ہوا اور نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کے باجود لفظ’’بندگی‘‘ آپ کے ساتھ لگا رہا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ﴾ (الاسراء:۱) ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مقام بندگی سب سے بلند مقا م ہے۔عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ارشاد ہے: ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾(الزخرف:۵۹) ’’عیسیٰ بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نشان قدرت بنا دیا۔‘‘ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا: (( لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ۔ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ، فَقُوْلُوْا: عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ۔)) [1]
[1] صحیح البخاری : ۶۸۳۰۔ ۳۴۴۵