کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 25
رہی ہیں۔‘‘[1]
ہر انسان جو اپنے ذہن کو مشغول کرے اور اپنی فکر ایسی چیزوں میں کام میں لائے جو غیبی اور اس عقل کے بس کی نہیں ہیں وہ یقیناً تھک ہار کرنامراد واپس ہوگا یا کم از کم عجائب واباطیل وخرافات میں پڑجائے گا جیسا کہ ڈارون، فروید اور دور کایم وغیرہ سے دیکھنے میں آیا۔
ہمیں اپنے رب کی کتاب کی طرف لوٹنا اور اس میں غوروتدبر کرنا چاہیے اور ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ () ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ () ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ﴾ (المٔومنون:۱۲، ۱۴)
’’یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا، پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑاکردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنادیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
ہمیں سوائے یہ کہنے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم کہیں : پاک ہے وہ ذات جو بے مثال اور انوکھی صورت پیدا کرنے والا ہے۔ جس نے پیدا کیا اور درست قامت بنایا اور جس نے(ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر(سیدھی) راہ دکھائی۔
سید قطب رقمطراز ہیں :
’’نوع انسانی مٹی کے جوہر سے پیدا ہوئی، پھر اس کے بعد اس کے افراد کی
[1] محمد قطب: الانسان بین المایۃ والاسلام، ص: ۱۶ مطبوعہ دارالشروق۔ بیروت، طبع ششم۱۴۰۰ھـ۔