کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 24
مدت دراز تک ترقی کرتے کرتے اس شکل وصورت پر پہنچا ہے، جس پر ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ بہتان اس لیے گھڑا گیا تا کہ یہ کہا جا سکے کہ ’’انسان بھی دیگر انواع واقسام کی انہی اشیاء کی طرح ہے جو دوسری نوعیت کی مقدم الوجود مختلف اشیاء سے وجود پذیر ہوئی ہیں ....چنانچہ اس طرح انسان بھی حیوانی مملکت کے سلسلے کی ایک مربود کڑی یا زنجیر ہے جو زمین پر رونما ہوئی ہے۔[1] بلاشبہ یہ انحرافی نظریہ ہردین پسند(دیندار) کو اس کے عقائد کے روبرو حیرت میں ڈال دیتا ہے اور وہ اپنے اس عقیدہ کی حفاظت اور اس کی مدافعت میں پیش درپیش میں پڑجاتا ہے، بلکہ یہ نظریہ اسے اپنے عقیدہ سے علیحدگی پسندی کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جب ڈارون نے یورپ میں اپنے اس ملحدانہ اور لا دینی نظریہ کا اظہار کیا اور انسان کا حیوان ہونا ثابت کرنے لگا تو یہ بات بالفعل سامنے آئی اور بدحال وتنگدست اور مصیبت زدہ قوموں اور ان پر حکمران وقابض کنیسہ کے درمیان فاصلہ اور بڑھ گیا۔ چنانچہ وہ دین یا اس کے باقی ماندہ حصہ سے بھی دست بردار ہو بیٹھے۔ شیخ محمد قطب فرماتے ہیں : ’’چنانچہ کنیسہ کو سب سے بڑا جھٹکا ڈارون کے ہاتھوں لگا جب اس نے مختلف انواع کی اصلیت کے نظریہ کا اعلات کیا۔ پھر سائنس دانوں اور اسکالروں کے ہاتھوں لگا جب اسے مسلسل ضرب لگتی رہی اور کنیسہ کا رعب ڈگمگا گیا اورزیر ہوتا گیا.... بلکہ جب یورپ نے اپنے اوپر سے کنیسہ کا تسلط اتار پھینکا، اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اپنے اوپرسے دین کا تسلط ختم کرڈالا، اس کے نزدیک کنیسہ دین کا نمائندہ تھا۔ جو اس کے اندر مجسم ہورہا تھا، اس نے انہیں اس بات پر انگیختہ کردیا کہ مسیحی عقیدہ میں جیسا کی کنیسہ نے اس کی تصویر پیش کی ہے، نہ کہ جیسا آسمان سے نازل ہوا ہے بہت سی باتیں عقل کے مخالف ہیں اور فہم وفراست کو بوجھل کر
[1] موریس بوکائی: ما أصل الانسان؟ اجابات العلم والکتب المقدستہ، ص:۱۵ مطبوعہ مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج۱۴۰۶ء