کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 23
نمائندہ ہے۔ [1]
انسان کو نئی اور انوکھی مخلوق کی شکل عطا کرنے والے نے مخلوقات کی کسی سابقہ مثال کے بغیر اور اپنی شکل پر پیدا کیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
﴿الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ () فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ﴾(الانفطار:۷، ۸)
’’جس(رب) نے تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر(درست اور) برابر بنایا، جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔‘‘
اور ارشاد ہے:
﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾ (التین:۴)
’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔‘‘
لہٰذا اس خالق نے اسے حسین وجمیل، سلیم الأعضاء، درست قامت اور بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔ شیخ رفاعی لکھتے ہیں :
’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان بندر، سور، کتا اور گدھے کی شکل میں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس پر بالکل قادر ہے۔‘‘ [2]
یہ ہے انسان کا آغاز اور یہ ہے اس کا قصۂ تخلیق جس کی تصویر کشی قرآن کریم نے کی ہے، آئیے ہم دیکھیں کہ اگر ربانی منہج و دستور نہ ہو جس پر کوئی انسان چل سکے، اور اس کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کر سکے تو کس طرح وہ بیہودہ فکر کو اپناتا ہے۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ انسان نے بندروں سے ترقی اور نشوو نما پائی ہے اور ایک
[1] محمد قطب: دراسات فی النفس الانسانیۃ، ص۔۔، مطبوعہ دارالشروق۔ بیروت، طبع ششم۱۴۰۳ھـ۔
[2] محمد نسیب الرفاعی، تیسیر العلی القدیرلا ختصار تفسیر ابن کثیر:۴۔۴۸۹، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض۱۴۰۷ھـ