کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 22
اس کے اندر روح پھونکتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کی روزی، اس کی عمر، اس کا عمل، اس کی نیک بختی یا بد بختی۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ! تم میں سے کوئی شخص(زندگی میں ) جنتیوں کا کام کرتا ہے یہاں تک کہ جنت اس سے ایک ہاتھ رہ جاتی ہے، پھر تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور وہ دوزخیوں کا کام کرتا ہے یہاں تک وہ دوزح اس سے ایک ہاتھ رہ جاتی ہے، پھر تقدیر کا لکھا غالب آجاتا ہے اور وہ جنتیوں کا کام کرنے لگتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔‘‘ یہ ہے انسان! اور یہ ہے اس کی تخلیق کا واقعہ اور اس کا مقصد وجود اور اس کا آخری انجام۔ ذیل میں انشاء اللہ ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔ ۱:....قصۂ تخلیق ارشاد ربانی ہے: ﴿ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ () فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ﴾ (صٓ:۷۱،۷۲) ’’جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا، میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں، سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘ لہٰذا انسان کیا ہے؟ زمین کی ایک مٹھی مٹی ہے اور اللہ کی روح کی ایک پھونک ہے، زمین کی ایم مٹھی مٹی جسم کی حقیقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہی اس کے اعضاء جوارح اور نسیں اور انتڑیاں ہیں ....اور اللہ کی روح کی ایک پھونک انسان کے روحانی پہلو کی نمائندہ ہے جو اس کے ادراک وارادہ اور حفظ ویادداشت اور انسان کے جملہ اقدار وعمل کی معنویت کی