کتاب: اپنی تربیت آپ کریں - صفحہ 15
تمہید ((اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔)) اما بعد! علمائے تربیت کا خیال ہے کہ عملی تربیت(سیکھنے اور سکھانے دونوں اعتبار سے) تین عناصر سے مرکب ہے: مدرس، منہج اور شاگرد، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ افراد کی نشونما اور سوسائٹی کی اصلاح میں مدرس کا بہت بڑا ہوتا ہے۔ مگر مدرس کے بغیر تربیت پانے اور علم ومصرفت جمع کرلینے کا یہاں کچھ دوسرا اسلوب و طریقہ ہی ہے جسے شخصی تربیت پانے اور علم ومعرفت جمع کرلینے کا یہاں کچھ دوسرا اسلوب و طریقہ ہے جسے شخصی وذاتی تربیت اور بالمباشر(بلاواسطہ) تربیت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں ایک شخص اپنی تربیت خود کرتا ہے، اور اپنے نفس کی صحیح رہنمائی و توجیہ کرتا ہے جو اس مقصد کے مطابق ہوتی ہے جس کے لیے اللہ عزوجل نے اسے اس سرزمین پر وجود بخشا ہے اور اسے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ اسی وجہ سے ایک فرد کی اپنی ذات اور اس کی تربیت کے لحاظ سے بہت عظیم ذمہ داری ہے، خواہ وہ شخص کلاس روم کی کرسیوں پر بیٹھا ہو، یامیدان عمل میں ہو، یا اپنے گھر یا گھر سے باہر ہو۔ اس سے اس کمال بشریت تک پہنچنے کا مطالبہ ہو رہا ہے جس کا سن رشد یا سن تکلیف کو پہنچے، پر ہر انسان سے مطالبہ ہوا کرتا ہے۔ اور سوائے الٰہی منہج کو اپنائے اسے یہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ارشاد باری ہے: