کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 42
حریص تھے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عتبان بن مالک جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور ان انصاری لوگوں میں سے تھے جو بدر کی لڑائی میں حاضر ہوئے تھے، ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری بینائی بگڑی معلوم ہوتی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں، جب مینہ برستاہے اور پر نالہ بہنے لگتاہے جو ان کے بیچ میں ہے تو میں ان کی مسجدوں میں نہیں جاسکتا کہ ان کے ساتھ نماز پڑھوں، میں چاہتاہوں، اے اللہ کے رسول! آپ میرے پاس تشریف لائیے اور میرے گھر میں نماز پڑھ دیجئے،میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں گا۔ راوی نے کہا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، اچھا میں ایسا کروں گا۔ (ان شاء اللہ تعالی) عتبان نے کہا، پھر (دوسرے دن ) صبح کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں مل کر دن چڑھے میرے پاس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اجازت دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور ابھی بیٹھے بھی نہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اپنے گھر میں کس جگہ کو پسند کرتاہے کہ میں وہاں نماز پڑھوں۔ عتبان نے کہا میں نے آپ کو گھر کا ایک کونا بتا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا،ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی،آپ نے دو رکعتیں (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گھروں میں نماز کے لیے کوئی جگہ خاص کرسکتے ہیں۔ خاص طور سے اس وقت جب کہ مسلمان کھلے عام نماز ادا نہ کرسکتے ہوں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے متبعین پر سختی کرنے لگے اور ان کا جینا دوبھر کردیا،تو اللہ تعالیٰ نے انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا، ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا
[1] صحیح بخاری: ۴۱۵۔