کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 227
ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رشوت لینے اور دینے والے اور ان دونوں کے درمیان مدد کرن والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔[1] ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دو فریقوں میں سے ایک فریق عدالت میں یا عدالت سے باہر جھوٹی قسم دوسرے کا مال اڑانے کی غرض سے کھائے وہ قاضی اس کے حق میں فیصلہ کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو کوئی شخص کسی مسلمان کا مال جھوٹی قسم کے ذریعے کھاتا ہے تو جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا۔‘‘[2] اسی طرح جھوٹی گواہی کے ذریعہ دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا بھی حرام ہے۔ کیونکہ جھوٹا گواہ جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر تو ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کرتا ہی ہے مگر جس کے حق میں گواہی دے کر اس کو ناجائز مال دلواتا ہے اس پر بھی زیادتی کرتا ہے۔ اس طرح کہ وہ اس شخص کو مال حرام کھانے میں مدد دے رہا ہے اور اپنی جھوٹی گواہی کے ذریعے اس کو سپرد جہنم کر رہا ہے اور اس کے لیے اللہ کی حرام کردہ شے کو حلال کر رہا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بڑے سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتلا دوں۔ وہ یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر بیٹھے تھے کہ اچانک اگلی بات سے پہلے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچ کر رہنا۔‘‘ صحابی کہتے ہیں کہ آپ اس بات کو دہراتے رہے حتی کہ ہم نے ان کے خاموش ہو جانے کی تمنا کی۔[3] مال حرام میں یہ بھی شامل ہے کہ دکاندار اپنا مال بیچتے ہوئے گاہک سے دھوکہ کرے اور اس کو بیچی جانے والی چیز کا عیب نہ بتائے۔ اسی طرح کوئی چیز ادھار لے کر واپسی سے انکار کر دینا، امانت میں
[1] مستدرک حاکم: ۴/۱۱۵۔ ابن ابی شیبۃ: ۴/۴۴۴۔ [2] صحیح البخاری: ۷۴۴۵۔ [3] صحیح مسلم: ۸۷۔ جامع الترمذی: ۱۹۰۱۔