کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 22
کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعیت، یعنی اہل خانہ کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی محافظ ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا،آدمی کا غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت دریافت کیا جائے گا، سنو! تم سب کے سب راعی ہو اور تم سب اپنی رعیت کی بابت سوال کیے جاؤگے۔ ‘‘ ۳۔ گھر کا ذمہ دار یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گھر،اپنے اور اپنے اہل وعیال کو برائی و فحاشی،بے حیائی و بے پردگی اور فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے عطا کیا ہے،کیونکہ گھر ہی ایک ایسی جگہ ہے جس میں آدمی اپنے آپ کو محفوظ کر سکتاہے، برائیوں سے بچ سکتا ہے، بدکاروں سے کنارہ کشی اختیار کر سکتاہے، عورتوں کو بے پردگی سے روک سکتا ہے، بچوں کو بروں کی صحبت سے بچا سکتا ہے، خاص طور سے ان حالات میں جب کہ ہر جگہ برائیوں اورفحاشیوں کا دور دورہ ہو اور انسان میں اتنی طاقت و قوت نہ ہو کہ وہ ان کاسدباب کرسکے اور نہ ہی ان کے خلاف احتجاج کرسکے، تو ایسی صورت میں لامحالہ اسے گھر ہی کارخ کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ ان تمام منکرات سے بچنے کے لیے گھر ہی ایک شرعی ٹھکانا ہے۔ بہت ساری حدیثوں میں اس کا ذکر آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( (طُوْبٰی لِمَنْ مَلَکَ لِسَانَہٗ وَوَسِعَہٗ بَیْتَہٗ وَ بَکٰی عَلٰی خَطِیْئَۃِ۔))[1] ’’مبارک بادہے اس شخص کے لیے جو اپنی زبان پرکنٹرول رکھے، اور اپنے گھروں کو کشادہ کرے اور اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہائے۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( (خَمْسٌ مَنْ فَعَلَ وَاحِدَۃٌ مِنْہُں کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللّٰہِ: مَنْ عَادَ
[1] صحیح الجامع الصغیر: ۳۹۲۹۔