کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 213
دوسرے مومن اپنی جان، مال اور عزت کے لیے بے ضرر سمجھیں۔‘‘[1]
۴۔ قسم اٹھا کر بات کی اہمیت اجاگر کرنا:
قرآن وسنت میں یہ طریقہ بکثرت موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! وہ شخص صاحب ایمان نہیں اللہ کی قسم! وہ شخص صاحب ایمان نہیں، پوچھا گیا: کون؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘[2]
۵۔اعتقادو اعمال سے گہری وابستگی:
اگر آپ اپنی اولاد کو سن ہوش و تمیز ہی سے صحیح اعتقاد، عبادت، فکری مسائل، تاریخی، اجتماعی اور تحقیقی ذرائع سے مربوط رکھیں گے تو نوجوانی میں انہیں اسلام کا پر اعتماد سپاہی پائیں گے۔ اور یہ بچے بڑے ہو کر اسلامی اعتقادات وعبادات، اخلاقیات، قانون، جہاد، دعوت، اسلامی نظام حکومت اور فکر وثقافت سے گہری وابستگی کی بنا پر باطل سے پنجہ آزما ہوں گے۔ اور یہ اللہ کے کلمہ کو بلند اور غالب کرنے کی سعی کریں گے۔
اعتقادی وابستگی اس مقصد کے حصول کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس لیے مربی کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر تربیت افراد کو اللہ عزوجل کی ذات، ملائکہ، آسمانی کتب، انبیاء و رسل، قضاء و قدر، قبر کے سوال وجواب، عذاب وثواب، بعث ونشور، حساب و کتاب، جنت و دوزخ اور جملہ امور غیبیہ جو قرآن وحدیث میں مذکور ہیں، ان سب سے صحیح واقفیت کرا دے۔ ان اعتقادی امور پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا اس کا رنگ اتنا ہی گہرا ہوگا۔
۶۔ شر و باطل کے خطرات سے خبردار کرنا:
تربیتی مسائل میں ایک اہم ذریعہ یہ بھی ہے کہ مربی اپنی اولاد اور زیر تربیت افراد کو
[1] جامع الترمذی: ۲۶۲۷۔ سنن النسائی: ۴۹۹۵۔ وصححۃ الشیخ الالبانی رحمہ اللہ فی الصحیحۃ: ۵۴۹۔
[2] صحیح البخاری: ۶۰۱۶۔ مسند احمد: ۷۸۱۸۔