کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 198
نوجوانی کا دور اور خواہشات کی بھر مار ۱۔ دائمی خو فِ الٰہی کی ترغیب: بچے کی پیدائش پر کانوں میں اذان و تکبیر، سب سے پہلے بچے کو کلمہ طیبہ کی تعلیم، ساتویں سال سے نماز کی پابندی کا حکم اور مشاہدہ فطرت کی ترغیب سے شریعت کا مقصد یہی ہے کہ بچے کے دل و دماغ میں تقویٰ راسخ کر دیا جائے۔ نوجوانی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تجرباتی علم اور ذہنی افق میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ تعلیماتِ شریعت اور اعتقادات کے اسرار ومعارف اور ان کے حقائق جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے اور حقائق معلوم نہ ہو سکنے کے نتیجے میں شکوک وشبہات اپنی راہ بنانے لگتے ہیں۔ اس لیے مربی کو چاہیے کہ ایمان تربیت کے ضمن میں وجودِ ذاتِ باری تعالیٰ، اس کی صفات، قضا و قدر، رسالت دوحی، اور آخرت کے مسائل اور ان کے حقائق شگفتہ اور دل نشین انداز میں سمجھائے تاکہ اطمینانِ قلب میں اضافہ، ایمان میں مضبوطی، تقویٰ میں استحکام اور اللہ تعالیٰ کا دائمی خوف پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ (فاطر: ۲۸) ’’اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم رکھتے ہیں وہی اس سے کما حقہ ڈرتے ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو ان کا علم بڑے دل پذیر انداز میں مہیا کیا جانا چاہیے۔ ۲۔شرم و حیا: حیا ایک فطری صفت ہے جو انسان کے بہترین اعمال کا سرچشمہ، دوسروں کے حقوق ادا