کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 16
تقریبات،غمی وخوشی کے ایام اور دیگر لیل و نہار کے کام اسی کے زیر سایہ پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ عورت جو سراپا پردہ ہے، اس کے لیے پردہ کا انتظام کرنا، اچھی رہائش گاہ کا نظم کرنا، ہر قسم کی سہولیات مہیا کرنا ہر فرد مسلم کا اولین فریضہ ہے، تا کہ وہ اپنی تمام ضروریات بآسانی پوری کرسکے اور اسے باہر کا دروازہ کھٹکھٹانا نہ پڑے۔ایسی صورت میں گھر ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس اسے کی تمام سہولیات فراہم ہو سکتی ہیں۔ گھر ایک طرف اس کے لیے پردہ کی جگہ ہے تو دوسری طرف حفاظت وصیانت کا ایک مضبوط قلعہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے آیت کریمہ: ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ﴾ (الأحزاب:۳۳) کے ذریعے سے اسی کا حکم دیا ہے کہ ’’اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔‘‘
چنانچہ ہمیں گھروں کو ایک نعمت خداوندی جاننا چاہیے، اس کی قدر کرنی چاہیے، بال بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہیے اور حتی الوسع ان کی اصلاح و سدھار، خیر وفلاح اور تعمیروترقی کے لیے عملی ا قدامات اٹھانے چاہئیں، تا کہ وہ اچھے اخلاق وکردار اور عمدہ عادات وخصائل کے مالک ہوں، ہر قسم کی آلائشوں اور گندگیوں سے پاک ہوں، دینی جذبہ پیدا ہو، دینی تعلیم کا ذوق وشوق ہو، زیور صالحیت سے آراستہ وپیراستہ ہوں، اللہ ورسول سے مضبوط رشتہ استوار ہو، چھوٹوں پہ شفقت اور بڑوں کی عزت کا جذبہ ہو، نرمیت کا فروغ ہو، سفاکیت اور سختی کا صفایہ ہو،اگر یہ تمام چیزیں ایک گھر کے اندر پائی جاتی ہیں تو ٹھیک ورنہ ایسے گھروں کا اس فرش خاکی پہ رہنا باعث بوجھ اور وبال ہے۔
قرآن کریم میں ایسے بہت سارے واقعات موجود ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، اس کی متعین کردہ حدود سے تجاوز کر گئے، کفروشرک کیا، بغاوت وسرکشی اختیار