کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 120
’’نیکی اور بدی برابر نہیں۔ اس کو بہت ہی اچھے طریقے سے دُور کیا کرو۔ پھر (دیکھنا) تمہار ادشمن بھی گویاتمہارا د وست ہو جائے گا۔‘‘ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملے میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں کسی نے حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہو تو او ر بات ہے۔[1] لبید بن اعصم یہودی نے آپ پر جادو کیا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ [2] حضرت انس رضی اللہ عنہ جب ایک بچے تھے۔دس برس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجنا چاہا۔ میں نے نہیں میں جواب دیا۔ آپ خاموش رہے۔ پھر میں باہر چلا گیا۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور پیچھے سے میری گردن پکڑی اور فرمایا: انس! اب جاؤ گے کہ نہیں ؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! جاتا ہوں۔ ‘‘[3] سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نے ساتھ برس آپ کی خدمت کی لیکن اس طویل مدت میں آپ نے مجھے نہ کبھی ڈانٹا اور نہ ہی مارا۔‘‘ [4] سیّدنا مسطح رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ غریب آدمی تھے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کی معاشی کفالت بھی کرتے تھے۔ منافقین کی طرف سے جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو اسلامی قرابت اور کفالت کے حقوق کو فراموش کرتے ہوئے مسطح بھی ان میں شامل ہو گئے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس قرابت کو ترک کرنے اور صلہ رحمی کو منقطع کر لینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
[1] صحیح بخاری: ۶۸۵۳۔ صحیح مسلم: ۴۲۹۴۔ [2] صحیح بخاری: ۳۲۶۸۔ صحیح مسلم: ۴۰۵۹۔ [3] صحیح مسلم: ۲۳۱۰۔ [4] مسند ابی یعلی: ۶/۳۰۷، ح: ۳۶۲۴۔