کتاب: اپنے گھر کی اصلاح کیجیے - صفحہ 104
اسی طریقہ سے اگر والدین کے درمیان کبھی اَن بَن ہوجائے تو بچوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کریں بلکہ آپس میں ہی اسے حل کرلیں،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں اَن بَن ہوجاتی ہے تو باپ بچوں سے کہتاہے کہ اپنی ماں سے مت بولو اور کبھی ماں بچوں سے کہتی ہے کہ باپ سے مت بولو، اس سے بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور ان کے دماغ کدورت سے بھر جاتے ہیں، پس ضروری ہے کہ اختلافات سے بچیں اوراگر کبھی اس کی نوبت آ بھی جائے تو اس کی پردہ پوشی کریں۔
۳۔برے لوگو ں کو گھروں میں آنے سے روکا جائے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( (مَثَلُ جَلِیْسِ السُّوْئِ کَمَثَلِ صَاحِبُ الْکِیْرِ۔))[1]
’’برے سا تھی کی مثال لوہار کی بھٹی جیسی ہے۔‘‘
صحیح بخاری کی روایت میں ہے:
( (وَکِیْرُ الْحَدَّادِ، یُحْرِقُ بَیْتَکَ أَوْ ثَوْبَکَ أَوْتَجِدُ مِنْہُ رِیْحًا خَبِیْثَۃً۔))[2]
’’ لوہار کی بھٹی تمہارے کپڑے یا گھر کو جلادے گی یا پھرتواس سے بدبو پائے گا۔‘‘
آج بہت سارے گھرانے اپنی لاپرواہی کے سبب فتنہ وفساد کی بھٹی میں جل رہے ہیں، جس کی وجہ ہرکس وناکس کا گھروں میں بے تکلف آنا جانا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو اہل خانہ کے درمیان عداوت ودشمنی کی سبب ہوتے ہیں اور میاں بیوی کے درمیان تفریق کا ذریعہ بھی۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر لعنت کرتاہے جو کسی عورت کی برائی اس کے شوہر سے کرتاہے اور شوہر کی برائی اس کی بیوی سے کرتاہے، جو میاں بیوی اور بچوں کے درمیان دشمنی کا سبب بنتا
[1] ابوداؤد: ۴۸۲۹۔
[2] البخاری مع الفتح: ۴/۳۲۳۔