کتاب: اپنے آپ پر دم کیسے کریں - صفحہ 177
۹۔ انسان کو یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جو مصیبت اس پر واقع ہوئی ہے اس میں اس کے لیے اجر ہے۔پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لکھے پر راضی رہااس کے لیے رضامندی ہے اور جوکوئی اس پر ناراض ہوگیا ؛ اس کے لیے ناراضگی ہے۔نبی أکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامیہے:’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اسے آزماتے ہیں ۔ پس جو کوئی اس آزمائش پر راضی رہا، اس کے لیے رضامندی ہے اور جو کوئی ناراض ہوگیا اس کے لیے ناراضگی ہے۔‘‘[1] اور یہ بھی فرمایا : ’’جو کوئی گریہ و زاری کرتا ہے، اس کے لیے گریہ وزاری ہی ہے۔ ‘‘[2] ۱۰۔ انسان کو یہ بات بھی یقینی طور پرجان لینی چاہیے کہ وہ جتنی بھی گریہ وزاری ؛ آہ و بکا کر لے؛ آخر کار مجبوراً اسے صبر ہی کرنا ہے۔ایسی صورت میں جو صبر کیا جاتا ہے یہ نہ ہی کوئی پسندیدہ فعل ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اجرو ثواب ہے۔ نبی أکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ ارشاد فرمایاہے:’’ بیشک صبر صدمہ کے پہلے وقت میں ہے ۔‘‘[3] ۱۱۔ انسان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے اس آزمائش میں مبتلا کرنے والا
[1] صحیح الترمذي(۲۳۹۶)۔حسنہ البانی۔ [2] أحمد(۵؍ ۴۲۷) والصحیحۃ(۱۴۶)وصحیح الجامع(۲۱۱۰)۔ [3] البخاری(۱۲۸۳)۔ ومسلم(۲۱۴۰)۔