کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 97
شب کا ہے۔اسی لئے علامہ سندھی نے حاشیہ نسائی میں ا س کو فرض اور نفل دونوں پر محمول کیاہے اور اس سے اقتداء المفترض خلف المتنفل کا مسئلہ متنبط کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: الظاہرانہ صلی بھم الفرض والنفل جمیعا فیکون اقتداء القوم بہ فی الفرض اقتداء المفترض بالمتنفل(حاشیہ نسائی ص 172) علامہ سندھی کا منشا یہ ہے کہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کو جس عقیدت کی بنا پر امام بنایا گیا تھا اس کا تقاضا یہی ہے کہ فرض اور نفل دونوں نمازیں انہیں نے پڑھائی ہوں اور اگر فرض اور نفل دونوں دو اماموں کی اقتداء میں ادا کی گئی ہوتیں تو راوی اس کی ضرور وضاحت کرتا۔جیسا کہ وتر کے بارے میں اس نے اس کی وضاحت کی ہے،لیکن خیر اگر اس واقعہ کو صرف نفل ہی پر محمول کیا جائے تب بھی اس حدیث سے بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت طلق بن علی نے پہلے اپنے بیٹے کے گھر والوں کو تراویح مع الوتر پڑھایا۔اس کے بعد یہاں سے فارغ ہو کر وہ اپنی مسجد گئے اور وہاں بھی لوگوں کو امامت کرائی۔جب وتر کا موقع آیا تو خود نہیں پڑھا بلکہ دوسرے شخص کو آگے بڑھا دیا۔ جب ''آخر شب'' کا افسانہ ہی من گھڑت ہے تو اب تراویح اور تہجد کے فرق کی بنیاد ہی ختم ہو گئی۔ ثانیاً:بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت طلق بن علی نے دوبارہ جو نماز پڑھائی تھی وہ ''آخر شب'' میں تھی،تب بھی یہ سمجھنا غلط ہے کہ آخر شب میں جو نفل پڑھی جائے گی وہ تراویح نہیں ہو سکتی۔تہجد ہی ہو گی۔ مولانا عبدالحق محدث دہلوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول:والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون کے ذیل میں لکھتے ہیں: