کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 96
وتر پڑھا دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے مولانا گنگوہی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: ''اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ طلق بن علی نے اول وقت میں تراویح ادا کی اور بعد اس کے اپنی مسجد میں جا کر آخیر وقت میں تہجد ادا کیا ''۔(الرای النجیح ص 10) اس استدلال کی ساری عمارت ان دو مفروضہ باتوں پر کھڑی ہے۔ایک یہ کہ حضرت طلق بن علی نے دوسری مرتبہ جو نماز پڑھی تھی وہ ''آخر شب'' میں تھی۔اس لئے ان کی بنیاد پر جو عمارت کھڑی کی جائے گی اس کا حشر بھی معلوم ہے اولاً:میر ی گذارش یہ ہے کہ حضرت طلق بن علی کا یہ واقعہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی دونوں میں تفصیل کے ساتھ مروی ہے،لیکن کسی روایت میں بھی ''آخر شب'' یا ''آخیر وقت'' کا ذکر نہیں ہے۔حیرت ہے کہ پیر اور مرید(گنگوہی اور مئوی)دونوں کی اس غفلت اور جرات پر کہ کس طرح اپنی خیالی بات کو ''حدیث'' بنا دیا اور پھر اس پر ایک مسئلہ شرعیہ کی بنیاد رکھ دی۔ ع ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہئے؟ حدیث کے پورے الفاظ آپ کے سامنے ہیں،پڑھیئے،بار بار پڑھئیے اور بتائیے کہ کہیں سے بھی ''آخر شب'' کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔''ثم انحد والی المسجد ہ'' میں ''ثم'' کا ترجمہ آخر کس قاعدہ اور لغت کی رو سے ''آخر شب'' کیا جائے گا؟۔ حدیث کے ظاہر سیاق سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا واقعہ اول ہی