کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 95
قولہ:حضرت گنگوہی نے بہت شرح و بسط کے ساتھ کئی اوراق میں نہایت مدلل طور پر دونوں کا جدا گانہ نماز ہونا ثابت کیا ہے(ص) ج:لیکن خود مولانا گنگوہی کے بیان کے مطابق وہ سب باتیں غیر تحقیقی ہیں اگر آپ ان کو ذکر کرتے تو ہم ان کی بھی قلعی کھول دیتے۔ قولہ:از انجملہ حضرت طلق بن علی کے عمل سے دونوں کا دو ہونا ثابت کیا ہے اور سنن ابو داؤد سے ان کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اول شب میں تراویح اور آخر میں تہجد پڑھتے تھے ج:حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ سنن ابی داؤد میں ان الفاظکے ساتھ مروی ہے۔ عن قیس بن طلق قال زار ناطلق بن علی فی یوم من رمضان رامسی عندنا وافطر ثم قام بناتلک اللیلة واوتر بنا ثم انحدر الی مسجدہ فصلی باصحابہ حتی اذا بقی الوتر قدم رجلا فقال اوتر باصحابک فانی سمعت رسول الہ صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول لا وتران فی لیلة انتھی(ابو داؤد باب نقض الوتر) قیس بن طلق نے کہا کہ(ہمارے باپ)طلق ایک دن رمضان میں ہماری ملاقات کوآئے۔شام تک ہمارے گھر رہ گئے یہیں روزہ افطار کیا پھر ہم کو اس رات میں نماز پڑھائی اور وتر بھی ہمارے ساتھ ہی پڑھا۔پھر اپنی مسجد کی طرف چلے گئے اور وہاں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی جب وتر باقی رہ گئے تو ایک شخص کو آگئے بڑھا دیا اور کہا کہ تم ان لوگوں کو