کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 90
مغائرت ثابت ہوتی ہے۔چنانچہ حنبلی مذہب کی فقہی کتاب مقنع میں ہے فان کان لہ تہجد جعل الوتر بعدہ(ص...) ج: اول تو حنفی فقہ ہو یا غیر حنفی فقہ،کسی فقیہ کی رائے ہم پر حجت نہیں ہے تا وقتیکہ اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہ دیا جائے: فان تنازعتم فی شٔ فردہ الی اللّٰه والرسول یہی ہمارا اصل الاصول ہے۔ نہ شبنم نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم چو غلام آفتا بم ہمہ ز آ فتا ب گو یم ثانیاً: اس سے پہلے ہم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول بتا چکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں پھر ان کے مقابلے میں کسی فقیہ اور امام کی رائے کا کیاوزن ہو سکتا ہے۔ ثالثاً: اس مقنع کے جزئیہ یا امام احمد کے قول میں ہر گز اس کی صراحت نہیں ہے کہ تہجد فی رمضان او رتراویح دو جدا جدا نمازیں ہیں۔یہ علامہ مئوی کا قصور فہم ہے اگرامام احمدکے نزدیک یہ دو نمازیں ہوتیں تو وہ تراویح کے بعد وتر پڑھنے سے منع نہ کرتے،کیونکہ سنت نبوی سے قطعًا ا سکا ثبوت نہیں دیا جا سکتا کہ تراویح یا تہجد کی رکعتیں تو پوری پڑھ لی گئیں ہوں لیکن اس کا خاتمہ وتر پر نہ ہواہو۔حدیثوں میں جہاں تراویح او رتہجد کا ذکر ہے ہر جگہ ان دونوں نمازوں کا خاتمہ وتر ہی بیان کیا گیا ہے۔ امام احمد کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غیر رمضان میں تہجد پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا یہ وظیفہ ہے تو رمضان میں اگر چہ تراویح ہی سے قیام اللیل اور تہجد فی رمضان کا حق ادا ہو گیا کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں لیکن اگر وہ اپنی عادت کے