کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 89
ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں نفلیں پڑھا کرتے تھے،یہ سمجھ لینا کہ ان کے نزدیک تہجد اور تراویح دو نمازیں الگ الگ ہیں محض خوش فہمی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں۔جیسا کہ ان کی شہرہ آفاق کتاب الجامع الصحیح سے معلوم ہوتا ہے،مگر قیامِ رمضان کے فضائل اور برکات کی تحصیل کے شوق میں وہ رات کے ابتدائی اور انتہائی دونوں حصوں میں رکعات کو تقسیم کر کے یہ نماز ادا کرتے تھے۔کچھ رکعتیں شروع رات میں با جماعت تخفیف ِ قراة کے ساتھ پڑھتے تھے اور کچھ رکعتیں آخر شب میں تنہا تطویل قرات کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔ تروایح بھی قیام اللیل ہی ہے اس لئے کچھ عجب نہیں ہے کہ امام بخاری نے تراویح کی رکعات کو رات کے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے پڑھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اپنے لئے اسوہ بنایا ہو۔ عن ام سلمة قالت کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی ثم ینام قدر ما صلی ثم یصلی قدر ما ینام ثم ینام ثم ینام قدر ما صلی الحدیث(فتح الملہم جلد ثانی ص294) یعنی حضرت ام سلمة رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر تک نماز تہجد پڑھ کر سو جاتے تھے اور اتنی دیر تک سوتے تھے جتنی دیر تک نماز پڑھی تھی اس کے بعد پھر جاگ جاتے تھے اور نماز میں مشغول ہو جاتے تھے او راتنی دیر تک مشغول رہتے تھے جتنی دیر تک سوئے تھے۔اس کے بعد پھر اتنی ہی دیر تک سوتے تھے جتنی دیر تک نماز پڑھتے تھے۔گویا کچھ رکعتیں اول رات میں پڑھتے تھے اور کچھ آخر رات میں۔ قولہ: اسی طرح فقہ حنفی نہیں بلکہ غیر حنفی فقہ کی جزئیات سے بھی دونوں کی