کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 88
علامہ ابن تیمیہ وغیرہ کی عبارتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک تہجد او رتراویح دونوں کا عدد معین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ مع الوتر تیرہ ہے۔علامہ ابن تیمیہ نے تو اس کی بھی تصریح کی ہے کہ بعد میں رکعات کا جو اضافہ ہوا ہے یہ تطویل قراء ت کا عوض ہے۔کما مر۔ لہٰذا آپ کا یہ حیلہ بھی ختم ہو گیا۔ ع: ٹوٹی ہوئی جو شاخ ہو وہ پھل نہیں سکتی قولہ: اسی طرح تہجد کی رکعتیں بالاتفاق ائمہ کے نزدیک وتر کے ساتھ سات سے تیرہ تک ہیں اور تراویح کی رکعات میں ان کا اختلاف ہے بیس سے 47 تک اس کا عدد پہونچ جاتا ہے۔(ص23) ج: تہجد کا یہ عدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے ا س کے باوجود اس سے زیادہ نفل کے طور پرپڑھنے کو کسی نے ممنوع قرار نہیں دیا ہے اسی طرح تراویح کے متعلق بھی سوائے ضدی حنفیوں کے خود اکابر علماء حنفیہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعات ہی ثابت ہیں۔اس سے زیادہ جن لوگوں نے پڑھا ہے وہ نفلی طور پر پڑھا ہے۔یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ یبس سے لے کر 47 تک کے تمام اعداد کو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل سنت سمجھ کر پڑھتے تھے۔ہمت ہو تو اس کا ثبوت دیجئے۔ قولہ: تیسری وجہ یہ ہے کہ امام بخاری کا عمل بتاتا ہے کہ وہ دونوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھتے تھے۔ان کا معمول تھا کہ رات کے ابتدائی حصہ میں اپنے شاگردوں کو لے کر باجماعت نماز پڑھتے تھے ……… اور سحر کے وقت اکیلے پڑھتے تھے۔(ص 11) ج: صرف اتنی سی بات سے کہ امام بخاری رمضان شریف کی راتوں میں