کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 84
ہٰذا علیٰ اتحاد الصلوٰتین عندہم انتہیٰ(فیض الباری صفحہ مذکورہ) ان دلائل کی روشنی میں انصاف و دیانت کی رو سے غور کرنے والے کے لئے تو اس میں کوئی شبہہ نہیں رہ جاتا کہ تراویح ہی تہجد فی رمضان ہے۔تاہم ان وجوہ مغائرت کا بھی ہمیں جائزہ لینا ہے جو مولانا مئوی نے اس سلسلہ میں پیش کئی ہیں۔ہر ہر وجہ کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے ایک اجمالی جواب ہم مولانا انور شاہ صاحب کے لفظوں میں یہاں نقل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں: قال عامة العلماء ان التراویح وصلوٰة اللیل نوعان مختلفان والمختار عندی انہما واحد وان اختلف صفتاہما ......... وجعل اختلاف الصفات دلیلا علیٰ اختلاف فوعیہما لیس بجید عندی بل کانت تلک صلوٰة واحدة اذا تقدمت سمیت باسم التراویح واذا تاخرت سمیت باسم التہجد ولا بدع فی تسمیتہا باسمین عند تغایر الوصفین فانہ لا حجر فی التغایر الاسمی اذا اجتمعت علیہ الامة وانما یثبت تغایر النوعین اذا ثبت عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم انہ صلی التہجد مع القامة اقامة بالتراویح انتہیٰ(حوالہ مذکورہ) یعنی '' عام طور پر علماء(حنفیہ)یہ کہتے ہیں کہ تراویح اور صلوٰة اللیل(تہجد)دونوں نمازیں مختلف النوع ہیں،لیکن میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ دونوں نمازیں متحد النوع ہیں۔اگرچہ دونوں کے اوصاف میں کچھ اختلاف ہے جیسے .... مگر صفات کو نوعی اختلاف کی دلیل بنانا میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔حقیقت میں یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں۔اول شب میں پڑھی گئی تو اس کا نام تراویح ہوا