کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 83
یعنی '' اس مسلک کی تائید حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تراویخ آخر شب میں اپنے گھر پڑھا کرتے تھے۔حالانکہ لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کریں۔حضرت عمر خود اس جماعت میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز آخر شب میں پڑھا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عمر نے لوگوں کو متنبہ بھی کردیا کہ جو نماز تم اول شب میں پڑھتے ہو اس کو اگر آخر شب میں پڑھا کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح اور تہجد فی رمضان دونوں کو ایک ہی نماز قرار دیا ہے لیکن عام طورپر علماء نے ان کی مراد کو نہیں سمجھا اس لئے الٹی اس کو ان دونوں نمازوں میں مفایرت نما کی دلیل بنا دیا اور یہ زعم کر بیٹھے کہ تہجد اور تراویح دو نمازیں ہیں ''۔ (4) چوتھی دلیل یہ ہے کہ بقول مولانا انور شاہ صاحب امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب قیام اللیل میں لکھا ہے کہ بعض علماء سلف اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص تراویح پڑھے اس کو پھر تہجد نہیں پڑھنا چاہئیے اور بعض علماء نے مطلق نفل کی اجازت دی ہے۔ علماء سلف کا یہ اختلاف صاف دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں۔ مولانا انور شاہ صاحب کا بیان یہ ہے: ثم ان حمد بن نصر مروزی وضع عدة تراجم فی قیام اللیل وکتب ان بعض السلف ذہبوا الیٰ منع التہجد لمن صلی التراویح وبعضہم قالوا با با حة النفل المطلق فدل اختلافہم